Wednesday, 25 June 2025

ڈوبے ہیں اشک اشک سفینہ کہاں رہا

 ڈوبے ہیں اشک اشک سفینہ کہاں رہا

مر مر کے جی رہے ہیں تو جینا کہاں رہا

کن صحبتوں میں تھے کہ وہ نسبت بدل گئی

اب کوڑیوں میں رہ کے خزینہ کہاں رہا

تم کو کہا تھا کس نے کہ رہزن کا ساتھ دو

ماتھے پہ شرمسار پسینہ کہاں رہا

جام و صُبو کو توڑ کر اک ہوش آ گیا

آنکھوں میں کھو گئے تھے تو پینا کہاں رہا

کچھ دن ہی ساتھ رہ کے وہ حالت نکھر گئی

پھر تو وہ مہ جبیں سا مہینہ کہاں رہا

طارق سی مصلحت ہو تو کشتی بھی تب جلے

اُس جیسا دل جگر یا وہ سینہ کہاں رہا

ہر فرد تو یہاں تھا جو ملت کا پاسباں

تاریک کہکشاں ہوئی بینا کہاں رہا

ماجد کا حال دیکھا تذبذب میں پڑ گئے

اب ہوش کھو گیا تو قرینہ کہاں رہا


عبدالماجد ہاشمی

No comments:

Post a Comment