ڈوبے ہیں اشک اشک سفینہ کہاں رہا
مر مر کے جی رہے ہیں تو جینا کہاں رہا
کن صحبتوں میں تھے کہ وہ نسبت بدل گئی
اب کوڑیوں میں رہ کے خزینہ کہاں رہا
تم کو کہا تھا کس نے کہ رہزن کا ساتھ دو
ماتھے پہ شرمسار پسینہ کہاں رہا
جام و صُبو کو توڑ کر اک ہوش آ گیا
آنکھوں میں کھو گئے تھے تو پینا کہاں رہا
کچھ دن ہی ساتھ رہ کے وہ حالت نکھر گئی
پھر تو وہ مہ جبیں سا مہینہ کہاں رہا
طارق سی مصلحت ہو تو کشتی بھی تب جلے
اُس جیسا دل جگر یا وہ سینہ کہاں رہا
ہر فرد تو یہاں تھا جو ملت کا پاسباں
تاریک کہکشاں ہوئی بینا کہاں رہا
ماجد کا حال دیکھا تذبذب میں پڑ گئے
اب ہوش کھو گیا تو قرینہ کہاں رہا
عبدالماجد ہاشمی
No comments:
Post a Comment