زندوں میں بھی شمار کے قابل نہیں رہے
جو تیرے اعتبار کے قابل نہیں رہے
عہدِ خزاں اجاڑ گیا اس قدر انہیں
یہ پیڑ اب بہار کے قابل نہیں رہے
اپنا ضمیر بیچ کے بھر لیں تجوریاں
غیرت پہ انحصار کے قابل نہیں رہے
رِندوں میں بیٹھ کر بھی خدا یاد آ گیا
پی کر بھی ہم خمار کے قابل نہیں رہے
فکرِ غمِ حیات میں الجھے ہیں اس طرح
تُو کیا، کسی سے پیار کے قابل نہیں رہے
دانستہ کھائے دھوکے حسینوں سے عمر بھر
اتنے کہ اب شمار کے قابل نہیں رہے
اکرام! خواہشوں کو مقاصد بنا کے ہم
پھر طرزِ با وقار کے قابل نہیں رہے
اکرام رشید قریشی
No comments:
Post a Comment