کبھی حسرتوں کو جگا دیا کبھی حسرتوں کو سلا دیا
تِرے لطفِ خاص نے زندگی کو شہیدِ رسم بنا دیا
مجھے کیا خبر تھی چمن پہ یوں یہ طوافِ برقِ تپاں ہے کیوں
ذرا دیر پہلے یہیں کہیں مِرا آشیاں تھا لیا دیا
بہ ہزار سعئ گریز بھی بچی حادثوں سے نہ زندگی
تِری آرزو کا چراغ بھی نئی آندھیوں نے بجھا دیا
ہوئی سیلِ غم سے جو آنکھ نم تو چھپا گئے اسے ہنس کے ہم
تِرا شکر اے غمِ زندگی! ہمیں تُو نے جینا سِکھا دیا
نئے رہبروں نے قدم قدم پہ دِیے تو خیر جلا دئیے
ابھی روشنی کی روایتوں کو ترس رہا ہے دِیا دِیا
جنہیں مرگِ جہد عزیز تھی، انہیں پھر حیاتِ ابد ملی
جو خیالِ مرگ سے ڈر گئے، انہیں زندگی نے مِٹا دیا
کسی اور عہد کی بات کیا، کسی اور نسل سے کیا گِلہ
مجھے افضل اپنے ہی عہد میں ہر اک آشنا نے بھُلا دیا
افضل کرتپوری
افضال حسین
No comments:
Post a Comment