Thursday, 26 June 2025

جہاں کو بانٹ کر خوشیاں جو مسکانوں میں رہتے تھے

 جہاں کو بانٹ کر خوشیاں جو مسکانوں میں رہتے تھے

وہ محلوں میں نہیں تشنہ بیابانوں میں رہتے تھے

ہمارے گھر میں لایا کون ان مصنوعی پھولوں کو

یہاں پہلے تو اصلی پھول گلدانوں میں رہتے تھے

انہیں بھی شوق دنیا نے غلام اپنا بنا ڈالا

ہمیشہ غرق جو تسبیح کے دانوں میں رہتے تھے

اتر آئے ہیں سڑکوں پر وہ ساغر توڑ کر اپنے

غم دوراں سے بے پروا جو میخانوں میں رہتے تھے

خطا بس یہ ہوئی سچائیوں سے منہ نہیں موڑا

وگرنہ ہم بھی اس کے خاص مہمانوں میں رہتے تھے

وردھا آشرم میں ان کے آنسو کون پونچھے گا

ہمارے گاؤں میں جو لوگ دالانوں میں رہتے تھے

جلال آتا تھا جس دم ہم فقیروں کو تو اے تشنہ

لرز جاتے تھے وہ بھی جو کہ ایوانوں میں رہتے تھے


تشنہ اعظمی

No comments:

Post a Comment