پوشیدہ زخم زخم جو نشتر میں لے چلے
ہم بھی خیالِ یار کو محشر میں لے چلے
ہم چل پڑے ہیں جانبِ منزل، اسی لیے
اپنے سروں کو طشتِ مقدر میں لے چلے
در در کی ٹھوکروں سے ہُوا فائدہ یہی
دیوار اپنی کھینچ کے ہم در میں لے چلے
ڈس لے نہ ہم کو ہجر کے اوقات میں کہیں
سائے کو ہم اٹھا کے اسی ڈر میں لے چلے
وہ شر، جسے تُو کہتا تھا بنیادِ اصلِ عشق
ہم بھی شرارتوں کو اُسی شر میں لے چلے
ملتان میں جو رہتی تھی وہ جانِ مہ وشاں
ہم اُس کو کھینچ تان کے بھکر میں لے چلے
دامن ہمیں تھا ڈر کسی طوفان کا، سو آج
گھر کو اٹھا کے اپنے، سمندر میں لے چلے
دامن انصاری
No comments:
Post a Comment