جو بھی باقی نظر آئے ہے کہاں باقی ہے
چل دئیے سارے مکیں خالی مکاں باقی ہے
لاش کاندھوں پہ اٹھائے ہیں یقیں کی ہم لوگ
زندگی! پاس ترے زندہ گماں باقی ہے
صاحباں مثل کوئی توڑ گیا سانس کے تیر
جسم مٹی ہے سو مٹی کی کماں باقی ہے
حجرۂ دل سے کوئی نکلا ہے یوں روتے ہوئے
شیشۂ لب میں مرے عکسِ فغاں باقی ہے
زندگی ختم ہوئی، راس، کسی بنیے کی
اب جو باقی ہے فقط سود و زیاں باقی ہے
اس طرح نقش ہوئے ہیں ترے چہرے کے نقوش
فلکِ دل پہ کوئی کاہکشاں باقی ہے
رحمتِ حق سے نہ مایوس ہو تسنیم میاں
زندگی کرنے کو اک اور جہاں باقی ہے
تسنیم عباس قریشی
No comments:
Post a Comment