Sunday, 22 June 2025

جو بھی باقی نظر آئے ہے کہاں باقی ہے

 جو بھی باقی نظر آئے ہے کہاں باقی ہے

چل دئیے سارے مکیں خالی مکاں باقی ہے

لاش کاندھوں پہ اٹھائے ہیں یقیں کی ہم لوگ

زندگی! پاس ترے زندہ گماں باقی ہے

صاحباں مثل کوئی توڑ گیا سانس کے تیر

جسم مٹی ہے سو مٹی کی کماں باقی ہے

حجرۂ دل سے کوئی نکلا ہے یوں روتے ہوئے

شیشۂ لب میں مرے عکسِ فغاں باقی ہے

زندگی ختم ہوئی، راس، کسی بنیے کی

اب جو باقی ہے فقط سود و زیاں باقی ہے

اس طرح نقش ہوئے ہیں ترے چہرے کے نقوش

فلکِ دل پہ کوئی کاہکشاں باقی ہے

رحمتِ حق سے نہ مایوس ہو تسنیم میاں

زندگی کرنے کو اک اور جہاں باقی ہے


تسنیم عباس قریشی

No comments:

Post a Comment