ہم نے جب ترکِ تعلق کی قسم کھائی ہے
پھر دبے پاؤں تِری یاد چلی آئی ہے
خودبخود آنے لگا پھر اسی محفل کا خیال
زندگی مجھ کو کہاں آج تُو لے آئی ہے
جانے کیوں ہو گئے ہم آپ کی الفت میں اسیر
جانے کس جرم کی ہم نے یہ سزا پائی ہے
میرے ارمانوں کا خوں کر کے تسلی تو نہ دیں
آپ نے قتل کیا ہے کہ مسیحائی ہے
ہم کو معلوم تھا ہو گا نہ دعاؤں کا اثر
یہ عداوت تو ازل سے ہی چلی آئی ہے
میرے غم خانے کی تقدیر میں قندیل کہاں
یہ تو جلتے ہوئے کچھ داغ اٹھا لائی ہے
ثریا رحمٰن
No comments:
Post a Comment