کل بھی جلے تھے دھوپ میں جلتے ہیں آج بھی
ہم لوگ سچ کی راہ پہ چلتے ہیں آج بھی
کل بھی مِرا وجود تھا دشمن کو ناگوار
کچھ لوگ میرے نام سے جلتے ہیں آج بھی
حُجرے دلوں کے کس لیے تاریک ہو گئے
تارے تو آسماں پہ نکلتے ہیں آج بھی
ان کی رفاقتوں پہ کریں کیسے اعتبار
رُخ دیکھ کر ہوا کا بدلتے ہیں آج بھی
دُشمن ملے تھے پہلے بھی اپنوں کے رُوپ میں
کچھ سانپ آستین میں پلتے ہیں آج بھی
انساں کے دُکھ پہ آنکھ کیوں انساں کی نم نہیں
گو چشمے پتھروں سے اُبلتے ہیں آج بھی
ہاتف عارفی فتحپوری
No comments:
Post a Comment