Wednesday, 18 June 2025

سونے دیتا نہیں شب بھر دل بیمار مجھے

 سونے دیتا نہیں شب بھر دل بیمار مجھے

درد نے اٹھ کے پکارا ہے کئی بار مجھے

چل کے ظالم نہ دکھا شوخئ رفتار مجھے

نظر آتے ہیں قیامت کے سب آثار مجھے

قبر پر جب مری آتے ہیں تو رو دیتے ہیں

بعد مرنے کے وہ سمجھے ہیں وفادار مجھے

آپ سے آئے تھے محفل میں تری او ظالم

ہائے اب آپ میں آنا ہوا دشوار مجھے

وہ اندھیرا ہے شب ہجر کہ دم گھٹتا ہے

زلف بن بن کے ستاتی ہے شب تار مجھے

میں رہوں یا نہ رہوں اتنی اجازت دے دو

کہ پڑا رہنے دیں درباں پس دیوار مجھے

جب کمر جھک گئی پھر زیست کی امید کہاں

کیا سنبھالے گی یہ گرتی ہوئی دیوار مجھے


صفدر مرزا پوری

No comments:

Post a Comment