Saturday, 21 June 2025

کچھ نہ کیا ارباب جنوں نے پھر بھی اتنا کام کیا

 کچھ نہ کیا ارباب جنوں نے پھر بھی اتنا کام کیا 

دار بہ دار افتاد سے کھیلے زلف بہ زلف آرام کیا

ساون ساون شعلے بھڑکے گلشن گلشن آگ لگی 

کیسا سورج ابھرا جس نے صبح کو آتش نام کیا

تنہائی بھی سناٹے بھی دل کو ڈستے جاتے ہیں 

رہگیرو کس دیس میں آ کر ہم نے آج قیام کیا

قریۂ گل سے دشت بلا تک اہل ہوس کی یورش تھی 

کچھ تو سمجھ کر دیوانوں نے ترک جادۂ عام کیا

رات کے ہاتھوں کب تک رہتا شہر نگاراں تیرہ و تار 

اپنے لہو سے ہم نے چراغاں آخر گام بہ گام کیا

عیش بھی گزرے رنج بھی گزرے دل کی حالت ایک رہی 

کب جشن آغاز منایا کب خوف انجام کیا

میر کے گیانی لاکھوں دیکھے میر سی کس میں بات عروج 

میری بیتی آپ نے کہہ لیں خود کو عبث بدنام کیا


عبدالرؤف عروج

No comments:

Post a Comment