بن کے پیغامِ سکوں بخش ٹھہرتی بھی نہیں
زندگی درد کی راہوں سے گزرتی بھی نہیں
دل سے جاتا بھی نہیں ان کی جدائی کا خٰال
ہائے تقدیر محبت کی سنورتی بھی نہیں
اس قدر یورشِ افکار نے گھیرا ہے مجھے
ذہن میں اب کوئی تصویر ابھرتی بھی نہیں
شکر ہے ان سے جو میں کہہ نہ سکا قصۂ غم
غیرتِ عشق، گوارا اسے کرتی بھی نہیں
شدتِ غم کا یہ عالم ہے کہ اب دل میں مِرے
شادمانی کی کوئی موج ابھرتی بھی نہیں
زیست وہ مے ہے کہ ناصر جسے پھینکا بھی نہ جائے
اور اگر پیجیے ہونٹوں سے گزرتی بھی نہیں
ناصر انصاری
No comments:
Post a Comment