پرانے غم کو نئے میں نئے پرانے میں
جوانی بیت رہی ہے انہیں ملانے میں
مجھے مٹانے میں خود کو مٹا دیا اس نے
ربر کو گھسنا پڑا ہے لکھا مٹانے میں
فقط یہ لکڑی نہیں ہے تمہاری بیساکھی
شجر کے ہاتھ کٹے ہیں اسے بنانے میں
پھر اس کے بعد میں خود کو تلاش کرتا ہوں
یہی خرابی ہے اس کو گلے لگانے میں
وہ مجھ کو چاہتا ہے بس کسی بھی قیمت پر
سو اپنا جسم مجھے دے گیا بیانے میں
سلمان سعید
No comments:
Post a Comment