Monday, 23 June 2025

اگر ہے وہ جو برائے سگاں میسر ہے

 اگر ہے وہ جو برائے سگاں میسر ہے

تو کہنے دیجیے ہم کو کہاں میسر ہے

ہمیں پتہ ہے کہ ترتیب میں نہیں ہیں ہم

ہمیں وہی ہے کہ جو ناگہاں میسر ہے

مگر وہ تم جو نہ خود ہو نہ تذکرہ ہے کہیں

مگر یہ ہم جنہیں نام و نشاں میسر ہے

ہمیں پتہ ہے کہ نایاب ہے جو ہے وہ ہے

زمانے بھر میں نہیں پر یہاں میسر ہے

زمانہ ہے تجھے از روئے کیف مستقبل

ہمیں تو گزرا ہوا  کل کلاں میسر ہے

جو فکرِ فاقہ نہ ہوتی تو مر گئے ہوتے

یہ کم نہیں کہ جو بارِ گراں میسر ہے

تری کریمی کے باعث تِری عطا کے طفیل

ہیں خوش نصیب جنہیں رائیگاں میسر ہے

کُھلے گی دھوپ تشکر کی انتہا بہ رضا

مگر وہ لوگ جنہیں سائباں میسر ہے

ہم ایسے خانہ پرستوں کی سادگی پہ نہ جا

وہیں ٹھہرتے ہیں جا کر جہاں میسر ہے

ہمیں تو آتی نہیں پھر بھی شعر دیکھیے گا

تمہیں تو خیر سے اُردو زباں میسر ہے


فرحت عباس شاه

No comments:

Post a Comment