اگر ہے وہ جو برائے سگاں میسر ہے
تو کہنے دیجیے ہم کو کہاں میسر ہے
ہمیں پتہ ہے کہ ترتیب میں نہیں ہیں ہم
ہمیں وہی ہے کہ جو ناگہاں میسر ہے
مگر وہ تم جو نہ خود ہو نہ تذکرہ ہے کہیں
مگر یہ ہم جنہیں نام و نشاں میسر ہے
ہمیں پتہ ہے کہ نایاب ہے جو ہے وہ ہے
زمانے بھر میں نہیں پر یہاں میسر ہے
زمانہ ہے تجھے از روئے کیف مستقبل
ہمیں تو گزرا ہوا کل کلاں میسر ہے
جو فکرِ فاقہ نہ ہوتی تو مر گئے ہوتے
یہ کم نہیں کہ جو بارِ گراں میسر ہے
تری کریمی کے باعث تِری عطا کے طفیل
ہیں خوش نصیب جنہیں رائیگاں میسر ہے
کُھلے گی دھوپ تشکر کی انتہا بہ رضا
مگر وہ لوگ جنہیں سائباں میسر ہے
ہم ایسے خانہ پرستوں کی سادگی پہ نہ جا
وہیں ٹھہرتے ہیں جا کر جہاں میسر ہے
ہمیں تو آتی نہیں پھر بھی شعر دیکھیے گا
تمہیں تو خیر سے اُردو زباں میسر ہے
فرحت عباس شاه
No comments:
Post a Comment