Tuesday, 24 June 2025

دشت کی پیاس بھی دریاؤں کی طغیانی بھی

 دشت کی پیاس بھی دریاؤں کی طغیانی بھی

اپنی آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں حیرانی بھی

شہر میں اپنے سوا بھی کئی دیوانے ہیں

جن کے دامن میں ہے عزت بھی پشیمانی بھی

رقص کرتی ہوئی آتی ہے ہوا جنگل سے

شوق تو بڑھتا ہے بڑھ جاتی ہے ویرانی بھی

آج کل ان پہ خزاں کا سا سماں رہتا ہے

ایسے حالات میں ٹیکیں گے وہ پیشانی بھی

ہائے وہ گھر جو مکاں بن کے کھڑے ہیں اب بھی

جن میں ماموں بھی رہا کرتے تھے اور نانی بھی

ساتھیا!زیست کی تلخی سے نہ گھبرا کہ یہاں

اس میں مشکل کا گزر بھی ہے تن آسانی بھی

یوں تو ہر جا ہیں وہی چار عناصر موجود

آہ! کربل کی زمیں تجھ میں نہیں پانی بھی

بے وجہ بحث بڑھی ثبت و نفی میں منعم

لے اُڑا وقت ہماری وہ خوش الحانی بھی


آفتاب غنی منعم

No comments:

Post a Comment