دشت کی پیاس بھی دریاؤں کی طغیانی بھی
اپنی آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں حیرانی بھی
شہر میں اپنے سوا بھی کئی دیوانے ہیں
جن کے دامن میں ہے عزت بھی پشیمانی بھی
رقص کرتی ہوئی آتی ہے ہوا جنگل سے
شوق تو بڑھتا ہے بڑھ جاتی ہے ویرانی بھی
آج کل ان پہ خزاں کا سا سماں رہتا ہے
ایسے حالات میں ٹیکیں گے وہ پیشانی بھی
ہائے وہ گھر جو مکاں بن کے کھڑے ہیں اب بھی
جن میں ماموں بھی رہا کرتے تھے اور نانی بھی
ساتھیا!زیست کی تلخی سے نہ گھبرا کہ یہاں
اس میں مشکل کا گزر بھی ہے تن آسانی بھی
یوں تو ہر جا ہیں وہی چار عناصر موجود
آہ! کربل کی زمیں تجھ میں نہیں پانی بھی
بے وجہ بحث بڑھی ثبت و نفی میں منعم
لے اُڑا وقت ہماری وہ خوش الحانی بھی
آفتاب غنی منعم
No comments:
Post a Comment