Thursday, 26 June 2025

تمہارے لیے سنبھال کر رکھا تھا

 تمہارے لیے


تمہارے لیے سنبھال کر رکھا تھا

زمین کی کشش سے باہر ایک آسمان

ایک گھوڑے کی پیٹھ

اور ایک سڑک جس پر

دھوپ چمکیلی

بارش البیلی ہوتی ہے

ایک مصرع لکھا تھا تمہارے لیے

من کی مٹی میں دبا کر رکھی تھی

تمہارے نام کی کونپل

تمہارے لیے بچائی تھی

لہو کی لالی

رت جگے

عقیدوں کی شکستگی

آگ کی لپٹیں ایک ہاتھ میں

ایک میں آب پاک

ایک آنکھ شرمیلی

ایک آنکھ بیباک

کشتی کے تختے

اور شوق کا مواج دریا

شہد دنیا کو بانٹ دیا

بچا کر رکھا اپنا موم

تم اس کی باتی ہوتیں

ہم جلتے ساری رات

تم نے چنا

سونے کا سندور

چاندی کی چنگیری

پلنگ نقشین

پختہ چھت

پکی دیواریں

پکا گھڑا

اتھلا کنواں

پانی جیسا ٹھہر گئیں تم

ہوا کے جیسا بکھر گیا میں


خورشید اکرم

No comments:

Post a Comment