خوش تھا کہ کسی خواب کی تعبیر ہوا میں
افسوس کہ پھر خواب سے تعبیر ہوا میں
میں آپ قفس، آپ ہی زنجیر ہوا میں
یوں اپنے لیے باعثِ تعزیر ہوا میں
معمار نے بننے ہی نہیں دی کوئی صورت
ہر بار نئی طرز سے تعمیر ہوا میں
ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا میں خود کو
پھر ایک نگہ ناز سے تسخیر ہوا میں
گستاخ نگاہی کا ارادہ تو نہیں تھا
تصویر بناتے ہوئے تصویر ہوا میں
وہ آج سرِ راہ ملا اور ملا یوں
گویا کہ شناسا نہیں رہگیر ہوا میں
خاموش ہی رہنے میں تعلق کا بھرم تھا
افسوس ہوا مائل تقریر ہوا میں
اک بار بچھڑتے ہوئے رویا تھا میں اس سے
کم کم ہی وگرنہ کبھی دلگیر ہوا میں
کیا فائدہ پہنچا مجھے اس شعر گری سے
بس اتنا کہ اک زخم کی تشہیر ہوا میں
دشمن کی صفوں میں مُجھے احباب نے بھیجا
ترکش سے نکالا ہوا اک تیر ہوا میں
اک زخم بناتا ہوا، ہر آنکھ سے گزرا
تخریب کے مقصد ہی سے تعمیر ہوا میں
جنت ہی میں رہتا تو میں جنت ہی میں رہتا
جنت سے جو نکلا تو ہمہ گیر ہوا میں
سب درد میسر تھے مگر ظرف کے ہاتھوں
غالب ہی ہوا اور نہ کبھی میر ہوا میں
میں خود میں یقیناً کوئی ترمیم کروں گا
پایا جو قلم جس سے کہ تحریر ہوا میں
علمدار حسین نقوی
No comments:
Post a Comment