سب لوگ شام ہوتے ہی جب اپنے گھر گئے
صحرا کو ہم بھی شہر سے پھر لوٹ کر گئے
اچھے دنوں کی آس میں جانے کدھر گئے
جتنے تھے میرے خواب سہانے بکھر گئے
گہرائی ناپنے میں تھے کچھ لوگ منہمک
کچھ لوگ پانیوں میں بلا خوف اتر گئے
اہلِ جنوں کی جب نہ رہی چاک دامنی
شاہانِ خوش لباس سے رشتے سنور گئے
کہتے ہیں ان سے پہلے یہ گلشن تھا خار زار
وہ کون لوگ تھے جو یہاں سے گذر گئے
جس کےلیے خرد کو تھی سردار کی تلاش
اہلِ جنوں وہ کام سرِ دار کر گئے
خود اپنے احتساب کی فرصت کہاں ملی
کچھ بھی ہوا تو غیروں پہ الزام دھر گئے
لشکر کو جان دے کے ملا بھی تو کیا ملا
فتح و ظفر کے تاج تو شاہوں کے سر گئے
میں نے کہا مطالبہ کوئی نہیں مرا
کہنے لگے کہ آپ تو بالکل سدھر گئے
خالد مبشر
No comments:
Post a Comment