جو دل میں جاگی وہی طلب ہے
خوشی ہماری بڑی طلب ہے
کہاں ہوا ہے سکوں میسر
ابھی بھی ہم کو تِری طلب ہے
کمال دکھ ہے نئی محبت
نئے دنوں کی نئی طلب ہے
وہ مجھ سے اکتا گیا ہے کب کا
اسے کہاں اب مِری طلب ہے
یہ دل جسے سب اجاڑتے ہیں
خدا کی بھیجی ہوئی طلب ہے
ہمارے ہونٹوں کو جان کشور
دعا میں ڈوبی ہنسی طلب ہے
شاہینہ کشور
No comments:
Post a Comment