ہم نہ ہوں گے تو یوں ہی محفل سجی رہ جائے گی
اے چراغِ طُور! تیری روشنی رہ جائے گی
موجِ دریا سر پٹکتی، ہانپتی رہ جائے گی
جب سابوں میں الجھ کر تشنگی رہ جائے گی
تا بہ کے اڑتا رہے گا آدمیت کا مذاق
اک تماشا بن کے یارو! زندگی رہ جائے گی
اڑ رہے ہیں اب نگاہوں سے جہاں کے خط و خال
کیا یہ دنیا میرے حق میں اجنبی رہ جائے گی
ہے ہمارے دم سے قائم یہ نظامِ کائنات
ایک دن ہم کو یہ دنیا ڈھونڈتی رہ جائے گی
ظلمتوں سے فکر کا سورج نہ نکلے گا کبھی
روشنی اپنے لبوں کو چاٹتی رہ جائے گی
ایک ایسا وقت بھی قسمت سے آئے گا نشاط
ڈھونڈتی ہم کو ہماری زندگی رہ جائے گی
داؤد نشاط
No comments:
Post a Comment