شکستہ ساز کے کئی سروں میں بانٹ کر مجھے
دئیے گئے قدم قدم نئے نئے سفر مجھے
بکھر گیا میں ہر طرف کرن کرن شفق شفق
کرے کہاں کہاں تلاش اب مِری نظر مجھے
لہو کے بوند بوند میں ہے تیرے جسم کی مٹھاس
پلا دے کاش خوں مِرا کوئی نچوڑ کر مجھے
چھپا نہ اپنے آپ کو صدا کی لہر لہر میں
مجھے بھی دیکھ بار بار خود بھی آ نظر مجھے
شبِ سیہ کی دلدلوں میں میں الجھ کے رہ گیا
جھلک دکھا کے چھپ گئی ہے دور سے سحر مجھے
اڑا تو میں نہ آ سکا کسی طرح بھی لوٹ کر
پکارتے ہی رہ گئے مکاں کے بام و در مجھے
بکھر نہ جاؤں ہر طرف میں نغمگی کے ساتھ ساتھ
جلا نہ دیں کہیں مِری صدا کی خود شرر مجھے
انجم نیازی
No comments:
Post a Comment