بڑے خلوص سے سر کو کٹا رہا ہوں میں
حیات و موت کا جھگڑا مٹا رہا ہوں میں
غمِ حیات کا مژدہ سنا رہا ہوں میں
قفس کی بات گلستاں میں لا رہا ہوں میں
حوادثات زمانہ نہ سمجھے کوئی اسے
فسانہ ہائے محبت سنا رہا ہوں میں
یہ اتفاق زمانہ ہے اور کی اکہیے
وہ بن رہے ہیں، فسانہ سنا رہا ہوں میں
یہ کون آج لب بام جلوہ افگن ہے
ہر ایک ذرے کو خورشید پا رہا ہوں میں
ہزار باغ ہے اپنا وطن مگر ہمدم
یہاں تو خود کو اکیلا سا پا رہا ہوں میں
ہمدم صدیقی
No comments:
Post a Comment