وہ بات جس سے یہ ڈر تھا کھلی تو جاں لے گی
سو اب یہ دیکھیے جا کے وہ دم کہاں لے گی
ملے گی جلنے سے فرصت ہمیں تو سوچیں گے
پناہ راکھ ہماری کہاں کہاں لے گی
یہ آگ جس نے جلائے ہیں شہروں جنگل سب
کبھی بُجھے گی تو یہ صُورتِ خزاں لے گی
یہ دن جو تھا یہ رہا ہیں گواہ وعدوں کا
یہ شب جو ہے تِرے دعووں کا امتحاں لے گی
اُتر گئی ہے مِرے جسم میں جو یہ وحشت
نکلتے وقت یہی عمرِ جاوِداں لے گی
ذرا سی خاک لہو دے کے مطمئن ہیں کیوں
ابھی تو راہِ سفر رہروؤں کہ جاں لے گی
وسیع اتنی ہے عریانیت یہ جاں کی دیکھ
بدن کے ڈھکنے کو یہ کتنے آسماں لے گی
بریدہ سر کیے جائیں گے سب جواں کردار
وہ چہرہ دیکھنا عاطف یہ داستاں لے گی
عاطف خان
No comments:
Post a Comment