Friday, 27 June 2025

وہ بات جس سے یہ ڈر تھا کھلی تو جاں لے گی

 وہ بات جس سے یہ ڈر تھا کھلی تو جاں لے گی

سو اب یہ دیکھیے جا کے وہ دم کہاں لے گی

ملے گی جلنے سے فرصت ہمیں تو سوچیں گے

پناہ راکھ ہماری کہاں کہاں لے گی

یہ آگ جس نے جلائے ہیں شہروں جنگل سب

کبھی بُجھے گی تو یہ صُورتِ خزاں لے گی

یہ دن جو تھا یہ رہا ہیں گواہ وعدوں کا

یہ شب جو ہے تِرے دعووں کا امتحاں لے گی

اُتر گئی ہے مِرے جسم میں جو یہ وحشت

نکلتے وقت یہی عمرِ جاوِداں لے گی

ذرا سی خاک لہو دے کے مطمئن ہیں کیوں

ابھی تو راہِ سفر رہروؤں کہ جاں لے گی

وسیع اتنی ہے عریانیت یہ جاں کی دیکھ

بدن کے ڈھکنے کو یہ کتنے آسماں لے گی

بریدہ سر کیے جائیں گے سب جواں کردار

وہ چہرہ دیکھنا عاطف یہ داستاں لے گی


عاطف خان

No comments:

Post a Comment