اگرچہ خود کو ہجوموں کے بیچ رکھتا ہُوں
جو سچ کہوں تو میں اُس کے بغیر تنہا ہوں
مجھے جہاں بھی وہ چاہے بہا کے لے جائے
وہ موجِ آب ہے اور میں نحیف تنکا ہوں
کئی برس سے نہیں ہوسکی مری تکمیل
میں ایک شخص کے اچھے دنوں کا وعدہ ہوں
پہاڑ کیسے مجھے منزلوں سے روکیں گے
میں آب ہُوں کوئی رستہ نکال لیتا ہوں
وہ جھوٹ موٹ مِرا حال پوچھتا ہے روز
میں جھوٹ موٹ ہی کہتا ہوں روز؛ اچھا ہوں
مٹا رہی ہے یہ خنکی، تپش زمانے کی
میں اُس کی یاد کے جھرنے کے پاس بیٹھا ہوں
میں دن میں راحتِ جاں اور شب میں اک دھڑکا
مجھے یہ لگنے لگا ہے، میں ایک سایہ ہوں
میں جب حیات رہا تب بھی صرف تیرا تھا
اور اب جو مر بھی چکا ہُوں تو اب بھی تیرا ہُوں
عجیب جنگ ہے ہجراں کے اور میرے بیچ
میں جتنی بار بنا اُتنی بار ٹُوٹا ہوں
عبیدالرحمٰن نیازی
No comments:
Post a Comment