لہو سے ہم نے بھی سینچا ہے یہ شجر کیسا
ملی نہ چھاؤں بھی اس کی ہمیں ثمر کیسا
نہیں ہے حدِ نظر تک نشان منزل کے
یہ کر رہے ہیں خدا جانے ہم سفر کیسا
مِرے وجود کو جس نے بنا دیا شعلہ
نہاں تھا خاک میں میری وہ اک شرر کیسا
دلوں کو دے گیا سوغات بد گمانی کی
وہ ایک لمحہ تھا للیکن تھا فتنہ گر کیسا
سراغ اپنا بھی ملتا نہیں مجھے اے دوست
بچھڑ کے تجھ سے ہوا ہوں میں در بدر کیسا
ہمارے لُٹنے کا دُکھ ہے تو ان کے محلوں میں
بپا یہ جشن سا رہتا ہے رات بھر کیسا
گھروں میں لوگ سرِ شام چھپ گئے ہاتف
پیام دے کے گیا ہے پیامبر کیسا
ہاتف عارفی فتحپوری
No comments:
Post a Comment