Thursday, 19 June 2025

لہو سے ہم نے بھی سینچا ہے یہ شجر کیسا

 لہو سے ہم نے بھی سینچا ہے یہ شجر کیسا

ملی نہ چھاؤں بھی اس کی ہمیں ثمر کیسا

نہیں ہے حدِ نظر تک نشان منزل کے

یہ کر رہے ہیں خدا جانے ہم سفر کیسا

مِرے وجود کو جس نے بنا دیا شعلہ

نہاں تھا خاک میں میری وہ اک شرر کیسا

دلوں کو دے گیا سوغات بد گمانی کی

وہ ایک لمحہ تھا للیکن تھا فتنہ گر کیسا

سراغ اپنا بھی ملتا نہیں مجھے اے دوست

بچھڑ کے تجھ سے ہوا ہوں میں در بدر کیسا

ہمارے لُٹنے کا دُکھ ہے تو ان کے محلوں میں

بپا یہ جشن سا رہتا ہے رات بھر کیسا

گھروں میں لوگ سرِ شام چھپ گئے ہاتف

پیام دے کے گیا ہے پیامبر کیسا


ہاتف عارفی فتحپوری

No comments:

Post a Comment