حق پسند لوگوں نے جب فریب کھایا ہے
وقت کے یزیدوں نے اپنا سر اٹھایا ہے
تشنگی کا ماتم کیوں ہاتھ میں سمندر رکھ
معجزہ یہ آدم نے بارہا دکھایا ہے
روشنی کا سورج ہے کرب کے سمندر میں
بے کسی کے آنگن میں ظلمتوں کا سایا ہے
لفظ لفظ سچائی بانٹنے وہ نکلا تھا
خوں میں تر بہ تر چہرہ لے کے ساتھ آیا ہے
دھوپ کی تمازت سے اوب کر پرندوں نے
مصلحت کی شاخوں پر آشیاں بنایا ہے
کیوں نہ لفظ و معنی سے نور کی کرن پھوٹے
فکر کے چراغوں میں خونِ دل جلایا ہے
لاشۂ انا نشتر لے کے اپنے کاندھے پر
جس گلی سے گزرا ہوں مہربان پایا ہے
ابوالخیر نشتر
No comments:
Post a Comment