نہ گر ابلیس نے اس طرح آدم کو ٹھگا ہوتا
تو کیوں بنتی یہ دنیا کیوں یہ ہنگامہ بپا ہوتا
جگہ اپنی نہ کرسی پر، نہ مسند پر، نہ منبر پر
ڈبویا مجھ کو پینے نے، نہ پیتا میں تو کیا ہوتا
میاں مجنوں کو بی لیلیٰ کے ابا یوں نہ ٹھکراتے
وہ بے چارہ بے اے کر کے ڈپٹی ہو گیا ہوتا
کسی کے دستِ شفقت سے نہ رہتی تم کو محرومی
تمہارا سر اگر اے ناصح مشفق! گھٹا ہوتا
اگر لڑکوں کے بدلے لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوتیں
تو اب تک میں تو دامادوں کے ہاتھوں لُٹ گیا ہوتا
نہ ہوتا گلرخوں میں رنگ پھیکا شیخ صاحب کا
اگر ریشِ مقدس کا حنائی کر لیا ہوتا
سرِ بزم سخن میں نے غزل گائی تو سب بولے
چمک جاتی غزل ہاشم کی گر اچھا گلا ہوتا
ہاشم عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment