خوش کن نظر فریب سا منظر بھی آئے گا
چل اور تھوڑی دیر تِرا گھر بھی آئے گا
ہو گا یہ حادثہ بھی کبھی میرے شہر میں
آئینہ گر کے ہاتھ میں پتھر بھی آئے گا
کیوں اشتعال رکھتا ہے لمحوں کی کوکھ میں
پتھر کے پھر جواب میں خنجر بھی آئے گا
وہ آرزو، وہ شوق، وہ چاہت نہیں رہی
الزام ایک دن یہ مِرے سر بھی آئے گا
جا تو رہا ہے ریت میں کشتی کو چھوڑ کے
"صحرا کو پار کر کے سمندر بھی آئے گا"
محسن! میں تیرگی میں اسے کیوں پکارتا
سورج ہے وہ تو روشنی لے کر بھی آئے گا
محسن عثمانی
نورالحسن
No comments:
Post a Comment