Tuesday, 17 June 2025

ایک ڈر تھا تنہائی کا ایک ڈر تھا جدائی کا

 اب ڈر نہیں لگتا


ایک ڈر تھا تنہائی کا

ایک ڈر تھا جدائی کا

جو مسلسل میرے ساتھ رہتا تھا

کل کا دن جو گزر گیا

بہت بھاری لگتا تھا

لگتا تھا کسی ایسے دن کا بوجھ اٹھا نہ پاؤں گی

آدھے ادھورے راستے میں ہی مر جاؤں گی

مگر کل کا دن بھی آ ہی گیا

اور ریت کا وہ گھروندا ساتھ ہی بہا لے گیا

جس میں رکھے تھے میں نے

رنگ برنگ کے پیارے پتھر

تتلیوں کے پر اور مور کے پنکھ

پھولوں کے سب رنگ

اور آسمان کی دھنک

گلہری کا ادھ کھایا اخروٹ


روبینہ فیصل

No comments:

Post a Comment