Monday, 16 June 2025

بجھی جاتی ہے شمع زندگی آہستہ آہستہ

 بجھی جاتی ہے شمع زندگی آہستہ آہستہ

مٹی جاتی ہے دل کی روشنی آہستہ آہستہ

سرِ دار و رسن بھی زندگی کے گیت گاتا ہوں

یہاں تک آ گئی دیوانگی آہستہ آہستہ

تصور میں ہزاروں مے کدے بنتے بگڑتے ہیں

مصیبت بن گئی ہے تشنگی آہستہ آہستہ

میں ڈرتا ہوں کہیں توہینِ ضبطِ غم نہ ہو جائے

زباں بننے لگی ہے خامشی آہستہ آہستہ

جمالِ دوست کی رعنائیاں انگڑائی لیتی ہیں

نکھرتی جا رہی ہے چاندنی آہستہ آہستہ

کچھ اس انداز سے فیضی بہاریں رقص فرما ہیں

چمن بننے لگی ہر اک کلی آہستہ آہستہ


فیضی نظام پوری

No comments:

Post a Comment