بجھی جاتی ہے شمع زندگی آہستہ آہستہ
مٹی جاتی ہے دل کی روشنی آہستہ آہستہ
سرِ دار و رسن بھی زندگی کے گیت گاتا ہوں
یہاں تک آ گئی دیوانگی آہستہ آہستہ
تصور میں ہزاروں مے کدے بنتے بگڑتے ہیں
مصیبت بن گئی ہے تشنگی آہستہ آہستہ
میں ڈرتا ہوں کہیں توہینِ ضبطِ غم نہ ہو جائے
زباں بننے لگی ہے خامشی آہستہ آہستہ
جمالِ دوست کی رعنائیاں انگڑائی لیتی ہیں
نکھرتی جا رہی ہے چاندنی آہستہ آہستہ
کچھ اس انداز سے فیضی بہاریں رقص فرما ہیں
چمن بننے لگی ہر اک کلی آہستہ آہستہ
فیضی نظام پوری
No comments:
Post a Comment