ہاتھ میں گر عصا نہیں ہوتا
بحر میں راستہ نہیں ہوتا
نیتیں پاک اگر نہیں ہوں تو
کوئی سجدہ ادا نہیں ہوتا
چار نظریں اگر نہیں ہوتیں
درد دل یوں بڑھا نہیں ہوتا
ہار جاتا اگر میں یہ بازی
یار مجھ سے خفا نہیں ہوتا
تم گر اپنا زیاں نہیں کرتے
دوسروں کا بھلا نہیں ہوتا
عشق کی آگ گر نہیں لگتی
اس قدر دل جلا نہیں ہوتا
ہم سنورنے کو بھی ترس جاتے
روبرو آئینہ نہیں ہوتا
بیچ دیتے ضمیر اپنا جو
ظلم مجھ پر روا نہیں ہوتا
تم عدن میں ہی رہتے اے صارم
تم سے گر وہ خفا نہیں ہوتا
عذیق الرحمٰن صارم
No comments:
Post a Comment