Monday, 30 June 2025

جو آہ ادھر نکلی وہ پہنچی ہے ادھر کیا

 جو آہ ادھر نکلی وہ پہنچی ہے ادھر کیا

پتھر کے کلیجے پہ بھی ہوتا ہے اثر کیا

اک ساتھ نہ کشتہ کرے جو دل کو جگر کو

ابرو کی کماں کیسی ہے وہ تیر نظر کیا

تھا دہر میں آباد کبھی اپنا چمن بھی

اس اجڑے چمن کو بھلا اب خوف شرر کیا

چبھتا ہے اجالا سا جو اب میری نظر میں

اس تیرہ شبی کی کبھی ہوتی ہے سحر کیا

جب قلب کو ہی حسرت دیدار نہیں ہے

پھر عام بھی ہو جلوہ اگر لطف نظر کیا


انیس قلب

No comments:

Post a Comment