شکوہ کریں گے ہم نہ کبھی روزگار کا
گویا کہ یہ گِلہ ہے محبت میں یار کا
تھا وہ حکیم یار کسی بادہ خوار کا
درماں کِیا تھا خمر سے جس نے خمار کا
اے تیغِ یار! وصف ہے یہ تیری دھار کا
دُکھتا نہیں ہے وار سے دل دلفگار کا
ناز و ادا کہوں تو بجا ہے، درست ہے
ابطال کفر ہے تیرے قول و قرار کا
تیغِ برہنہ دیکھ کے سب سر نِگوں ہوئے
بے پردگی نے کام کیا پردہ دار کا
مشتاق زندہ باش، ترقی نصیب ہو
رُتبہ خُدا بڑھائے تِرے انکسار کا
مشتاق دہلوی
منشی بہاری لال
No comments:
Post a Comment