دریا ساحل طوفاں دیکھے وقت کے آنے جانے میں
ہم نے ساری عمر گنوا دی کشتی پار لگانے میں
بیگانے تو بے گانے تھے بیگانوں کا شکوہ کیا
اپنوں کا بھی ہاتھ رہا ہے گھر کو آگ لگانے میں
پل دو پل میں ڈھ جاتے ہیں تاج محل ارمانوں کے
لیکن برسوں لگ جاتے ہیں بگڑی بات بنانے میں
ہوش و خرد کا دامن تھامو جوش و جنوں سے کام نہ لو
شیشے پر ہی بن آتی ہے پتھر سے ٹکرانے میں
کیسی منزل کیسی راہیں خود کو اپنا ہوش نہیں
وقت نے ایسا الجھایا ہے اپنے تانے بانے میں
اپنے ہی سر تہمت لے لی دیوانے نے دانستہ
جانے کیا مجبوری ہو گی سچی بات بتانے میں
نفرت کی دیواریں ڈھا دیں پیار کے آنگن میں بیٹھیں
بربادی ہی بربادی ہے ناحق خون بہانے میں
ارمان اکبرآبادی
سعید احمد
No comments:
Post a Comment