Sunday, 15 June 2025

دریا ساحل طوفاں دیکھے وقت کے آنے جانے میں

 دریا ساحل طوفاں دیکھے وقت کے آنے جانے میں 

ہم نے ساری عمر گنوا دی کشتی پار لگانے میں 

بیگانے تو بے گانے تھے بیگانوں کا شکوہ کیا 

اپنوں کا بھی ہاتھ رہا ہے گھر کو آگ لگانے میں 

پل دو پل میں ڈھ جاتے ہیں تاج محل ارمانوں کے 

لیکن برسوں لگ جاتے ہیں بگڑی بات بنانے میں 

ہوش و خرد کا دامن تھامو جوش و جنوں سے کام نہ لو 

شیشے پر ہی بن آتی ہے پتھر سے ٹکرانے میں 

کیسی منزل کیسی راہیں خود کو اپنا ہوش نہیں 

وقت نے ایسا الجھایا ہے اپنے تانے بانے میں  

اپنے ہی سر تہمت لے لی دیوانے نے دانستہ 

جانے کیا مجبوری ہو گی سچی بات بتانے میں 

نفرت کی دیواریں ڈھا دیں پیار کے آنگن میں بیٹھیں 

بربادی ہی بربادی ہے ناحق خون بہانے میں 


ارمان اکبرآبادی

سعید احمد

No comments:

Post a Comment