Wednesday, 18 June 2025

ہمیں ابرو کا خم اس کو ہمارا دل پسند آیا

 ہمیں ابرو کا خم اس کو ہمارا دل پسند آیا

چُنا قاتل نے ہم کو، اور ہمیں قاتل پسند آیا

عظیم آباد و آرا کو نثار اس پر کیا میں نے

جو مجھ کو عارضِ گلگوں کا ان کے تِل پسند آیا

مِرا بس ہو تو ایسی حُور کو سو جوتے لگواؤں

جسے جنت میں اک ملائے ہر محفل پسند آیا

ہے فرق اتنا کہ میں شاعر ہوں میرا دوست تاجر ہے

مجھے لیلئ محمل، اور اسے محمل پسند آیا

پسند اپنی، طبیعت اپنی اور معیار اپنا ہے

مہِ نو آپ کو، مجھ کو مہِ کامل 🌕 پسند آیا

پسند اس نے کیا مجھ کو بھی یہ کیسے کہوں ہاشم

مگر بنگلہ 🏡 مِرا اس کو لبِ ساحل پسند آیا


ہاشم عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment