غم عشق میں نہیں جو کسی نام تک نہ پہنچے
نہیں یاد نام وہ بھی جو سلام تک نہ پہنچے
وہ سلام ہی نہیں ہے جو پیام تک نہ پہنچے
وہ پیام ہی نہیں ہے جو کلام تک نہ پہنچے
وہ کلام ہی نہیں ہے جو تمام تک نہ پہنچے
وہ تمام ہی نہیں ہے جو دوام تک نہ پہنچے
وہ دوام ہی نہیں ہے جو مدام تک نہ پہنچے
وہ مدام ہی نہیں جو ترے نام تک نہ پہنچے
یہ خدا ہی جانے واعظ کہ ہوئی نماز پوری
رہے محو سجدہ یوں ہم کہ سلام تک نہ پہنچے
وہی دل ہے جو نہ چاہے سر بام حسن آئے
ہے وہی نظر جو اٹھ کر لب بام تک نہ پہنچے
تجھے سہل تھا یہ ساقی کوئی جام ہم تک آتا
ہمیں کچھ تو ہو گی مشکل ترے جام تک نہ پہنچے
وہ تمہاری راہ ٹھہری نہ لگے سراغ جس کا
یہ ہے راستہ ہمارا جو مقام تک نہ پہنچے
یہ کمال بے خودی ہے کہ نتیجۂ خودی ہے
تجھے ڈھونڈتے رہے یوں کہ مقام تک نہ پہنچے
میں وہ رند ہوں کہ ساقی تری بخششوں کے چھینٹے
مرے ذوق و شوق درد تہ جام تک نہ پہنچے
یہی آشیاں قفس ہے ہمیں اس کی کیا خوشی ہے
کہ ہم اپنی بے پری سے کبھی دام تک نہ پہنچے
مرا نامۂ محبت نہ پڑھا انہوں نے پورا
مجھے رہ گئی یہ حسرت مرے نام تک نہ پہنچے
سید حکیم احمد نقوی
No comments:
Post a Comment