Monday, 30 June 2025

غم عشق میں نہیں جو کسی نام تک نہ پہنچے

 غم عشق میں نہیں جو کسی نام تک نہ پہنچے

نہیں یاد نام وہ بھی جو سلام تک نہ پہنچے

وہ سلام ہی نہیں ہے جو پیام تک نہ پہنچے

وہ پیام ہی نہیں ہے جو کلام تک نہ پہنچے

وہ کلام ہی نہیں ہے جو تمام تک نہ پہنچے

وہ تمام ہی نہیں ہے جو دوام تک نہ پہنچے

وہ دوام ہی نہیں ہے جو مدام تک نہ پہنچے

وہ مدام ہی نہیں جو ترے نام تک نہ پہنچے

یہ خدا ہی جانے واعظ کہ ہوئی نماز پوری

رہے محو سجدہ یوں ہم کہ سلام تک نہ پہنچے

وہی دل ہے جو نہ چاہے سر بام حسن آئے

ہے وہی نظر جو اٹھ کر لب بام تک نہ پہنچے

تجھے سہل تھا یہ ساقی کوئی جام ہم تک آتا

ہمیں کچھ تو ہو گی مشکل ترے جام تک نہ پہنچے

وہ تمہاری راہ ٹھہری نہ لگے سراغ جس کا

یہ ہے راستہ ہمارا جو مقام تک نہ پہنچے

یہ کمال بے خودی ہے کہ نتیجۂ خودی ہے

تجھے ڈھونڈتے رہے یوں کہ مقام تک نہ پہنچے

میں وہ رند ہوں کہ ساقی تری بخششوں کے چھینٹے

مرے ذوق و شوق درد تہ جام تک نہ پہنچے

یہی آشیاں قفس ہے ہمیں اس کی کیا خوشی ہے

کہ ہم اپنی بے پری سے کبھی دام تک نہ پہنچے

مرا نامۂ محبت نہ پڑھا انہوں نے پورا

مجھے رہ گئی یہ حسرت مرے نام تک نہ پہنچے


سید حکیم احمد نقوی

No comments:

Post a Comment