Wednesday, 11 June 2025

نہ کوئی شام تھی اس دن کی نہ سویرا تھا

 نہ کوئی شام تھی اس دن کی نہ سویرا تھا

نہ کوئی عکس تھا اس میں نہ کوئی چہرہ تھا

شب خیال میں کچھ تیرتی سی کرنیں تھی

فراز فکر کے اوپر چراغ میرا تھا

ستارے دیکھ کے اس کو چراغ پا تھے بہت

وہ چاند اپنی حویلی سے آج نکلا تھا

ہوا کی زد میں تھے جتنے بھی دیپ تھے اس کے

سلگ رہا تھا جو دل میں چراغ میرا تھا

عجیب طرح کے نعرے لگا رہی تھی شام

اور اک اداس پرندہ شجر پہ بیٹھا تھا

تم آئے ہو تو سنی چاپ اپنے قدموں کی

بہت دنوں سے مجھے انتظار میرا تھا

گلاب رنگ تھے شبنم کے پاؤں تھے اس کے

وہ چاندنی کا بدن کس قدر سنہرا تھا


نسیم اجمل

No comments:

Post a Comment