جرأت ہے تو طوفاں سے گزر کیوں نہیں جاتے
زندہ نہیں احساس تو مر کیوں نہیں جاتے
گیسو تِرے لہرا کے بکھر کیوں نہیں جاتے
دل میں تِرے انداز اتر کیوں نہیں جاتے
میں گوشۂ تنہائی میں سستا لوں ذرا سا
کچھ دیر کو آلام ٹھہر کیوں نہیں جاتے
سینے میں مچلتے ہوئے جذبات کے دھارے
اشعار کے قالب میں اتر کیوں نہیں جاتے
کس سوچ میں گم بیٹھے ہو راہوں میں تبسم
ویراں سہی اپنا تو ہے گھر کیوں نہیں جاتے
اصغر علی تبسم
No comments:
Post a Comment