کبھی گرداب اور طوفان دیتے ہیں سہارے بھی
کبھی کشتی ڈبوتے ہیں دریا میں کنارے بھی
سنورتی ہے جہاں تیری وفا تیری خوشی ہمدم
بھڑکتے ہیں اسی دل میں تِرے غم کے شرارے بھی
زمانہ ہم سے پوچھے قدر اور قیمت اُجالوں کی
کیے ہیں ہم نے صدیوں تک اندھیروں میں گزارے بھی
ہیں تیرے شہر کے منظر یقیناً دید کے قابل
مگر کچھ کم نہیں ہیں میرے گاؤں کے نظارے بھی
اُتر جاتا ہے مجھ کو دیکھ کر چڑھتا ہوا دریا
میری آواز سُنتے ہی ٹھہر جاتے ہیں تارے بھی
جمیلِ خستہ جاں کب تک کسی کی راہ دیکھو گے
سحر ہونے کو ہے اب جھلملاتے ہیں ستارے بھی
جمیل نظام آبادی
No comments:
Post a Comment