گلے میں طوق کو زنجیر سمجھنا چھوڑو
ہر محرومی کو تقدیر سمجھنا چھوڑو
تم اگر حق بھی نہ لے پاؤ تو پھر بہتر ہے
ہاتھ میں لوہے کو شمشیر سمجھنا چھوڑو
جو سمجھتے ہیں کہ معراج فقط مسند ہے
ایسے لوگوں کو بھی تم پیر سمجھنا چھوڑو
تم اگر گھر کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے
در و دیوار کو جاگیر سمجھنا چھوڑو
اپنی ماں جیسی زمیں کا جو اگر سودا کیا
شِیرِ مادر کو بھی شِیر سمجھنا چھوڑو
تم اگر خود کے مسائل کا بھی نہ حل لا پاۓ
خود کو پھر ماہرِ تدبیر سمجھنا چھوڑو
خود کو بہلاؤ نہ تم جھوٹی تسلی سے کبھی
تم ہر اک عکس کو تصویر سمجھنا چھوڑو
اپنے مطلب سے بھی ملتے ہیں رضا لوگ یہاں
ہر گلے لگتے کو دلگیر سمجھنا چھوڑو
سید محتشم رضا
No comments:
Post a Comment