پھر بہانہ بن گیا ہے میل کا
ایک ڈبہ ہے ہمارا ریل کا
اور بھی نزدیک اس کے آ گیا
فائدہ ہوتا ہے دھکم پیل کا
خلعتِ شاہی کے جیسی وہ لگے
عام سا اک سوٹ ہوں میں سیل کا
اس قدر وارفتگی سے ہم ملے
پیڑ سے جیسے لپٹنا بیل کا
ہم محبت کے سفر پر چل پڑے
جو بھی ہو انجام اب اس کھیل کا
اس کے دل میں قید تنہا ہو گئے
کوئی دروازہ نہیں اس جیل کا
محمد عمران تنہا
No comments:
Post a Comment