ملا جبیں کو جو اس آستاں سے اِذن سجود
زبان عشق پہ جاری ہوئے صلواۃ و درود
وہ اس کے بارگیہ ناز کی درخشانی
ہر ایک ذرے میں تھی برقی طور کی سی نمود
وه گیف بار تھا منظر کہ محو حیرت تھے
یہ مہر و مہ یہ ستارے یہ آسمان کبود
نگہہ حدود زمان و مکار سے دور گئی
عدم عدم رہا باقی نہ اب وجود وجود
سوال باقی کوئی عرض و دید کا نہ رہا
سمایا دل میں جو خود حسن ہی کے ذوق نمود
تھا عشق حسن کے آگے نیاز کی تصویر
نماز ادا ہوئی، کیسا قیام، کیسا قعود
جو آنکھیں چار ہوئیں ہوش ہی بچا نہ رہے
بہ یک نگاہ مٹا فرق شاہد و مشہود
لب عطا سے جو نکلی صدائے وجد آگئیں
فضا میں پھیل گیا سوزِ نغمۂ داؤد
عطا کاکوی
No comments:
Post a Comment