کسی نظر میں نہیں احترام کے قابل
جو آدمی نہیں ہوتا ہے کام کے قابل
نہ اس کی آنکھ کے پانی سے پیاس بُجھتی ہے
فقط لہو ہے دلِ تشنہ کام کے قابل
ہمارے پاس نہ زر ہے نہ مرتبہ اونچا
ہمیں کیوں آپ سمجھتے، سلام کے قابل
ملے مجھے بھی جگہ آپ ہی کے قدموں میں
مِرے لیے تو یہی ہے قیام کے قابل
وہ لوگ ہم پہ مسلط نہ کیجیے جبراً
کہ جن کے نام نہیں احترام کے قابل
مُنافقوں نے سبھی سے نصیحتوں میں کہا
فلاں فلاں نہیں بالکل کلام کے قابل
نئے سماج میں ڈھلنا مُحال ہوتا ہے
وہ لوگ ہیں ہی نہیں اس نظام کے قابل
نجانے کھیل مقدّر کا کس طرف جائے
رہے نہ خاص کے قابل نہ عام کے قابل
اسیر کر گئی ہے اس کی ساحرانہ ادا
نہ تھا عبید بظاہر غُلام کے قابل
عبید رضا عباس
No comments:
Post a Comment