سب یقیں بیچ کر سب گماں بیچ کر
میں تونگر ہوں سود و زیاں بیچ کر
جھڑ گئے میری شاخوں سے برگ و ثمر
پھر بہاریں خریدیں خزاں بیچ کر
اک نیا آشیانہ بناؤں گا میں
بر لب میکدہ اک مکاں بیچ کر
سب بکے گا یہاں بیکسی کے سوا
میں ابھی آ رہا ہوں زباں بیچ کر
اپنے بچوں کی روزی کماتا رہا
وہ عدالت میں اپنا بیاں بیچ کر
مجھ کثافت زدہ نے گلستان میں
اک نیا گھر لیا تتلیاں بیچ کر
مفلسی روح کی اب بھی پہلے سی ہے
کیا کمایا دل نغمہ خواں بیچ کر
عابدی چپ رہا مصلحت کے سبب
کون خوش ہے یہاں آستاں بیچ کر
خواجہ علی حسین عابدی
No comments:
Post a Comment