اپنے مزدور کی حالت پہ ذرا غور تو کر
گرد چہرے پہ لیے رنج و الم بولتا ہے
کیا تجھے علم نہیں ہے سر بازار طلب
جیب خالی ہو تو انساں کا بھرم بولتا ہے
تم نے دیکھا ہے سر شام ہرے پیڑوں پر
کیسے گزرے ہوے صدمات کا غم بولتا ہے
میں تجھے دوست فقط اتنا بتا سکتا ہوں
قید ہو جائے پرندہ تو وہ کم بولتا ہے
تو جسے دل سے بھلانے پہ مصر ہے صابر
تیری آنکھوں میں اسی شخص کا غم بولتا ہے
صابر علی صابر
No comments:
Post a Comment