ایک عرصہ ہوا
میرے محلّے میں کوئل نہیں کُوکی
صبح چڑیوں کی آواز بھی مدّھم ہے
اب گھونسلوں کے تنکے بھی
بکھرے نہیں ملتے
وہ پروں کا ریشم سا پنکھ
دیکھے کافی وقت ہوا
گھر کے آنگن پختہ ہو گئے
باری باری سارے درخت ہی کٹ گئے
ہم جس پر چڑھتے اترتے بڑے ہوئے
وہ میٹھے امردو کا درخت
اب نہیں رہا
وہ خالہ کے گھر لگا آم کا درخت
اپنے ہرے پتّوں سمیت کٹ گیا ہے
میں نے اس کی شاخوں کو
دم توڑتے سڑک کے کنارے
اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے
کاٹنے والے نے گھسیٹ کے پھینکا تھا
اب میرے محلّے میں سایہ
صرف دیوار کا ہے
تیز ہوا میں پتّوں کا شور نایاب ہوا
اب بے سُری کھڑکیوں کے پٹ
صہیب جمال
No comments:
Post a Comment