Wednesday, 8 October 2025

نہ کوئی چھت نہ کوئی سائبان رکھتے ہیں

 نہ کوئی چھت نہ کوئی سائبان رکھتے ہیں

ہم اپنے سر پہ کُھلا آسمان رکھتے ہیں

بچا کے ہم یہ بزرگوں کی شان رکھتے ہیں

نہیں ہے شمع مگر شمع دان رکھتے ہیں

گلے بھی ملتے ہیں ہاتھوں کو بھی ملاتے ہیں

غضب کی دُوری بھی ہم درمیان رکھتے ہیں

خدایا تیرا کرم ہے کہ کچھ نہ رکھتے ہوئے

ہم اپنی مُٹھی میں سارا جہان رکھتے ہیں

شرافتوں سے تعلق نہیں ہے کچھ ان کا

وہ نیچے لوگ جو اونچا مکان رکھتے ہیں

زمانہ کس لیے ہم کو تلاش کرتا ہے

نہ کوئی نام نہ ہم کچھ نشان رکھتے ہیں

بہت سنبھال کے رکھنا قدم تم ان پر بھی

تمہیں خبر نہیں پتھر بھی جان رکھتے ہیں

امیرِ شہر کی دعوت قبول کرتے نہیں

تِرے فقیر بڑی آن بان رکھتے ہیں

مزاج کس نے بگاڑا ہمارے بچوں کا

قلم کے بدلے یہ تیر و کمان رکھتے ہیں

خدا کا شکر کہ ٹُوٹے ہوئے ہیں پر پھر بھی

ہم اپنے ذہن میں اونچی اُڑان رکھتے ہیں

ظفر انہیں بھی کبھی تم پڑھو انہیں بھی سنو

خموش لب بھی کئی داستان رکھتے ہیں


ظفر محمود

No comments:

Post a Comment