Thursday, 9 October 2025

درد بن کے کبھی غم بن کے ستاتا ہی رہا

 درد بن کے کبھی غم بن کے ستاتا ہی رہا

اپنے ہونے کا وہ احساس دلاتا ہی رہا

وہ خریدار تو مدت ہوئی آتا ہی رہا

میں دکاں ہیروں کی پلکوں پہ سجاتا ہی رہا

ہائے وہ اس کے جدا ہونے کا منظر یا رب

وہ چلا بھی گیا میں ہاتھ ہلاتا ہی رہا

گہری تاریکی تھی سناٹا تھا پر اک جگنو

روشنی کا مجھے احساس دلاتا ہی رہا

ہر نیا دور نئے لے کے چراغ آیا کیا

اک اندھیرا سا مگر زیست پہ چھاتا ہی رہا

میری بیزار طبیعت کو سکوں مل نہ سکا

یوں تو ہر روز تری بزم میں جاتا ہی رہا

نہ سمجھ پایا یہ انسان مذاہب کے حصول

گھر یہاں بھائی کا خود بھائی جلاتا ہی رہا

اب کے بادل کو خدا جانے ہوا کیا ایسا

جب بھی برسا تو ہری فصل جلاتا ہی رہا

سارا دن اس کے تصور سے ہوا کی باتیں

خواب بن کے مری راتوں کو سجاتا ہی رہا

شعر و فن اس کا ہے ممنون دبی آہوں میں

اپنے غم سے مری غزلوں کو سجاتا ہی رہا

وقت کے ساتھ بدل جاتا میں لیکن ہر پل

میرا ماضی مجھے آئینہ دکھاتا ہی رہا

ایک معصوم سا پاکیزہ سا جذبہ حیرت

جب بھی بہکا تو مجھے راہ پہ لاتا ہی رہا


حیرت فرخ آبادی

جیوتی پرساد مشرا

No comments:

Post a Comment