جبین یار پہ آئی ہے برہمی کی شکن
کہاں بہار کہاں شوق و آرزو کا چمن
یہ تیرے روپ میں ڈوبا ترا گداز بدن
سحر کی گود میں جیسے ہمک رہا ہو چمن
ہر اک نگاہ اٹھی مجھ پہ انگلیاں بن کر
مگر کسی کو نہ سوجھے ترے خطوط بدن
یہی مآل ہے کوشش کا بد نصیبی میں
تمام حسرت و ارماں تمام رنج و محن
نہ جانے کتنے سرابوں کا پیش خیمہ ہے
ہمارے دشت تصور میں اک غرال ختن
کیا تھا جرم تمنا کبھی جوانی میں
تو آج سیتے ہیں حسرت کا اپنے ہاتھ کفن
بہار زیست ہے شاید وہی فضا کہ جہاں
گل نشاط کی قیمت ہے خار غم کی چبھن
سدا بہار ہے ہر زخم دل اگر راہی
ہنسی کی بات ہے آئی گئی خزاں کا چلن
رام پرکاش راہی
No comments:
Post a Comment