ریت پر ایک نیا نقش بنانے کے لیے
دیر کتنی لگی دیوار گرانے کے لیے
ہر کوئی خواب نہیں دیکھتا خوابوں میں یہاں
ہر کوئی مرتا نہیں تیرے زمانے کے لیے
فیصلہ تم بھی کرو ترکِ تعلق، کہ سفر
گھر سے آیا ہوں قدم کوئی اٹھانے کے لیے
آ کہیں دور بہت دور بہت دور چلیں
اک نیا شہر محبت کا بسانے کے لیے
اے زمیں تو بھی سنبھل میں بھی سنبھل جاتا ہوں
تجھ پہ رکھنے ہیں مجھے پاؤں جمانے کے لیے
احتجاجاً جو نکل آئے ہیں سڑکوں پر لوگ
کیسے ممکن ہے رکیں ہاتھ بڑھانے کے لیے
تم اداسی کے لبادے کو اتارو کہ سلیم
راستہ ایک نہیں ہوتا دِوانے کے لیے
اشرف سلیم
No comments:
Post a Comment