اسلاف کی عظمت کے نشاں، رکھوں کہاں کہاں
افلاس ہے پیہم رقصاں،۔ جاؤں جہاں جہاں
دِکھتا نہیں ہے کیوں یہ، اربابِ مجال کو
ہے درد مِرے گُلشن کا، کتنا نماں نماں
سنتا نہیں کوئی بھی، کس اور دوں دُہائی میں
بہرے جہاں میں رہتا ہوں، چیخوں کہاں کہاں
نوخیز عمر ہوں، پھر بھی دِکھتا ہوں پِیر میں
پی کے لہو میرا وہ، دِکھتا ہے جواں جواں
فنکاریوں نے تیری، ہے کیا دیا ملک کو
ہر فن میں ہے تُو مولا، تھا چرچا زباں زباں
اُلجھا دیا شاطر نے، یہ کس قریں سے ڈاہر
اللہ کی اماں مانگے ہے، اب تو رُواں رُواں
مبشر حیات ڈاہر
No comments:
Post a Comment